جب
بھی دکان یا ریڑھی پہ خوبانی سجی دکھائی دے ،تو اسے کھانے کو جی للچا
اٹھتا ہے۔یہ مزے دار میوہ ضرور کھائیے مگر دھیان رہے کہ اس کی گٹھلی سے
نکلنے والی گری سے دور رہیئے۔وجہ یہ کہ گری سیانوجنینی نامی کیمیائی مرکبات
(Cyanogenic Compounds) رکھتی ہے۔سیانوجین مرکبات ہمارے جسم میں پہنچتے ہی
کیمیائی عمل سے گذرتے اور ’’سانائڈ‘‘ (Cyanide)زہر میں تبدیل ہو جاتے
ہیں۔یاد رہے،محض 150تا 200ملی گرام سانائڈ انسان کو
مار ڈالتا ہے۔جبکہ اس سے کم مقدار اسے مختلف عوارض مثلاً بے ہوشی،
سردرد،خارش، بخار، کمزوری، گھبراہٹ،بد خوابی وغیرہ میں مبتلا کر دیتی ہے۔
خوبانیوں کی 1 کلو تلخ گری میں 1800ملی گرام (1.8 گرام )اور میٹھی اقسام 1
کلو گری میں300ملی گرام تک سانائڈ ملتا ہے۔سو خوبانی کی گری سے پرہیز کیجیے
اور خاص طور پہ اسے توڑ کر کبھی نہ کھائیے۔یہ ہم پہ اللہ تعالی کی مہربانی
ہے کہ سالم گری بھولے سے کھائی جائے،تو عموماً اسے بدن سے نکال پھینکتا
ہے۔ خوبانی کے علاوہ ہم سب کے من پسند پھلوں…چیری،آلو بخارا اور آڑو کی
گٹھلیوں سے نکلنے والی گریاں بھی سیانوجین کیمیائی مادے رکھتی ہیں۔یوں ان
پھلوں کی گریاں بھی نہ کھائیے ورنہ آپ کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ چاول
یہ فصل کئی اقوام کا من بھاتا کھانا ہے۔پاکستان میں بھی چاول خوب کھایا
جاتا ہے۔تاہم اس کا زیادہ استعمال طبی لحاظ سے سود مند نہیں۔وجہ یہ کہ چاول
میں ایک زہریلا مادہ’’آرسینک‘‘(Arsenic) پایا جاتا ہے۔سائنس دانوں کی رو
سے بہ لحاظ چاولوں کی مختلف اقسام ان میں 2.6 تا 7.2 مائکروگرام آرسینک
ملتا ہے۔جبکہ اس زہر کی 50گرام مقدار انسان کو موت تک پہنچا دیتی ہے۔
گویاچاول کی ایک دو پلیٹیں کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے جسمانی
مدافعتی مادے آرسینک زہر کو بے اثر کر ڈالتے ہیں۔تاہم طویل عرصہ، دوپہر و
رات چاول کھائیں جائیں،تو انسان امراض قلب اور مثانے کے کینسر میں مبتلا ہو
سکتا ہے۔اسی لیے اعتدال کی سب سے بہترین راہ ہی اپنائیے۔ ریوند چینی یورپ
میں لوگ اس پودے کی ٹہنیاں پکا کے کھاتے ہیں۔ہمارے ہاں طب مشرق میں خصوصاً
جلاب کی ادویہ میں ریوند چینی(Rhubarb) استعمال ہوتی ہے۔تاہم اس پودے کے
پتے آگزیلک تیزاب (Oxalic Acid) رکھتے ہیں۔یہی کیمیائی مادہ گھروں میں
استعمال ہونے والی بلیچ اور زنگ دور کرنے والے کیمیکلز میں استعمال ہوتا
ہے۔ اسی تیزاب کے باعث ریوند چینی کے پتے ہرگز نہ کھائیے۔انھیں تناول کرنے
سے عموماً منہ میں مرچیں لگتی ہیں اور سر چکرانے لگتا ہے۔اگر انسان انھیں
زیادہ مقدار میں کھا لے،تو مر بھی سکتا ہے۔ آلو یہ ہمہ صفت اور بچوں بڑوں
کی دل پسند سبزی قدرتی طور پہ ایک کیڑے مار مادہ، سولانین (Solanine) رکھتی
ہے۔تاہم یہ مادہ انسان کے لیے زہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ عام آلوئوں میں یہ
مادہ زیادہ مقدار میں نہیں پایا جاتا،مگر ’’سبز‘‘آلو میں خاصا ملتا
ہے۔خصوصاً سبز آلو سے پودا پھوٹ پڑے،تو وہ سولانین کا منبع بن جاتا
ہے۔تاہم تب بھی فرد آدھ کلو آلو کھائے تبھی سولانین کے مضر اثرات عیاں
ہوتے ہیں یعنی قے و دست آنا اور سر چکرانا۔ایک کلو ایسے آلو کھانے سے
حرکت قلب بند ہو سکتی ہے۔چناں چہ سبز آلو کبھی نہ خریدئیے اور نہ استعمال
کیجیے۔ سیب اور ناشپاتی ان دونوں لذیذ پھلوں کے بیج بھی ایسے کیمیائی
مرکبات رکھتے ہیں جو ہمارے بدن میں پہنچتے ہی سانائڈ زہر بننے میں دیر نہیں
لگاتے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ بیج بڑی مقدار میں کھائے جائیں، تبھی
انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عام انسان اگرکم از
کم 25 سیبوں یا ناشپاتیوں کے بیج اچھی طرح چبائے کر کھائے،تو تبھی جسم میں
سانائڈ زہر کی اتنی مقدار جنم لے گی کہ اسے قبر میں پہنچا سکے۔یاد رہے،فرد
بے دھیانی میں بیج سالم نگل لے ،تو پھر زہر جنم لینے کا امکان کم ہوتا ہے۔
بہرکیف سیب اور ناشپاتی کے بیج اپنے معدے سے دور ہی رکھئیے۔کیا معلوم کہ
کوئی خطرناک طبی مسئلہ پیدا ہو جائے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے:’’اپنے جسم کی
حفاظت کیجیے…کرۂ ارض پہ یہ واحد جگہ ہے جہاں آپ رہ سکتے ہیں۔‘‘ ٭…٭…٭
خلاصہ :
خوبانی کی گری استعمال نہ کریں
کڑوا بادام کسی بھی صورت میں نہ کھائیں
اعصاب کے مریض ساگو دانہ زیادہ استعمال نہ کریں
سیب اور ناشپاتی کے بیج نہ نگلیں
خوراک بدل بدل کر کھایا کریں ، ایک ہی قسم کی خوراک کا زیادہ عرصے تک استعمال نہ کریں
خلاصہ :
خوبانی کی گری استعمال نہ کریں
کڑوا بادام کسی بھی صورت میں نہ کھائیں
اعصاب کے مریض ساگو دانہ زیادہ استعمال نہ کریں
سیب اور ناشپاتی کے بیج نہ نگلیں
خوراک بدل بدل کر کھایا کریں ، ایک ہی قسم کی خوراک کا زیادہ عرصے تک استعمال نہ کریں
Reference: http://www.dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-02-28/8211